جب تک مجھ پہ کوئی تنقید نہیں ہوتی
پھر میرے سخن میں جدت مزید نہیں ہوتی
دشمنوں کا تو کوئی وار نہیں چلتا مجھ پہ
وہی دل دکھاتا ہے جس سے امید نہیں ہوتی
میرے خوابوں میں چلے آتے ہیں وہ
اندھیرے میں ان کی دید نہیں ہوتی
ویسے تو یہاں کوئی نہیں ملتا کسی سے
جب تک کوئی حاجت شدید نہیں ہوتی
اپنی اپنی ضد پہ اڑے ہیں ہم دونوں
اب ہم میں کوئی گفت و شنید نہیں ہوتی
جب تک نہ دیکھ لیں وہ چاند سا چہرہ
تب تک اصغر کے گھر میں عید نہیں ہوتی