کوئی تہمت لگائے تو اذیّت کم نہیں ہوتی

Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

کوئی تہمت لگائے تو اذیّت کم نہیں ہوتی
مگر میں جانتی ہوں اس سے عزّت کم نہیں ہوتی

یہ وہ دولت ہے جو دل کی بدولت کم نہیں ہوتی
محّبت کرتے رہنے سے محّبت کم نہیں ہوتی

محّبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی

جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کہ رہتی ہیں
کبھی اُنگلی چبانے سے اذّیت کم نہیں ہوتی

نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن
کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی
 

Rate it:
Views: 1133
08 Dec, 2013