تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر
تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر
میں جو سر بہ سر کسی گم شدہ سی صدا کا عذاب ہوں
میری تار زخم تلاش لے، مجھے شام غم کا رباب کر
بڑی بے امان ہے زندگی، اسے بن کے کوئی پناہ مل
کوئی چاند رکھ میری شام پر، میری شب کو مہکا گلاب کر
کوئی بد گمان سا وقت ہے کوئی بد مزاج سی دھوپ ہے
کسی سایہ دار سے لفظ کو میرے جلتے دل کا حجاب کر
کبھی دیکھ لے میری چاہ کو کبھی آ نکل میری راہ کو
کہیں دو قدم میرے ساتھ چل کے مجھے بھی عالی جناب کر
تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر
تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر