کوئی موضوع کوئی عنوان ہی نہیں ملتا
تخیل کیلئے موزوں سامان ہی نہیں ملتا
جو آشنا ہو کے بھی ناآشنا ہی رہے
میری نظر کو وہ انجان ہی نہیں ملتا
جو واقف حال دل گداز بن کے رہے
دل کو ایسا کوئی مہمان ہی نہیں ملتا
پھولوں سے دلنشیں رنگیں نظاروں سے
گلدستہ سجا لوں مگر گلدان ہی نہیں ملتا
عظمٰی خیال و خواب میں رقصاں حقائق کو
لفظوں میں قید کرلوں پر دیوان ہی نہیں ملتا