کوئ تو پوچھے کہ وہ کیوں اداس رہتا ہے
وفا کے شہر میں جو بےلباس رہتا ہے
بتاۓ بھولی ہوئ یار کی مجھے صورت
جو میرے شہر میں چہرہ شناس رہتا ہے
ہے محفلوں میں مری گفتگو کا مرکز تو
بس ایک تو ہی مرا اقتباس رہتا ہے
تجھی کو سوچتے رہنا ہے زندگی میری
تو ہی امید مری تو قیاس رہتا ہے
وہ اور کوئ نہیں جان جاں تمہارے بن
جو شخص دل میں مرے بن کے آس رہتا ہے
یہ کیسا روگ لگایا ہے تو نے دل کو مرے
تمہارے بعد بہت بےحواس رہتا ہے
میں چھپ کے بھی تو نیا پیار کر نہیں سکتا
ترا خیال جو دن رات پاس رہتا ہے
مرے خدا تو فقیروں کو جیسے حال میں رکھ
ہمارے لب پہ تو حرف سپاس رہتا ہے
مری کمی جو اسے ہونے ہی نہیں دیتا
کوئ تو میرا یہاں التباس رہتا ہے
کوئ تو پوچھتا باقرؔ کبھی یہ مجھ سے بھی
کہ رات دن تو بھلا کیوں اداس رہتا ہے