کوئی حسرت میرے دل کی نہ بھلا پاؤ گے
کوئی غمزہ نہ ہو ایسا کہ تڑپ جاؤ گے
چاہنے والے کبھی ارزاں کہیں ملتے بھی ہیں
قدر چاہت کی ہو ورنہ کبھی پچھتاؤ گے
برق گرتی ہے کبھی آشیاں مٹتا بھی ہے
جو ارادے رہیں پختہ تو سنبھل جاؤ گے
کوئی انداز بیاں ایسا جو بھائے من کو
جو خلوص شوق نہ ہو منہ کی بس کھاؤ گے
بھنور میں کشتی کبھی پھنس بھی جائےتو کیا غم
جو یقیں پختہ ہو ہر شے کو مطیع پاؤگے
ایسا فطرت نے کرشمہ بھی جہاں کو دکھلایا
آگ کے شعلوں میں رہ کر کبھی سستاؤ گے
یہ ہوائیں جو مخالف بھی چلیں تو کیا غم
ان میں پلنا ہی سیکھو تو کیوں گھبراؤ گے
وہ تو جھانسے میں کسی کے نہیں آنے والے
جو ہیں مخلص تو انہیں کیسے کبھی للچاؤ گے
اثر کی اہل ستم سے یہی التجا ہے
کہ ملے دنیا میں صلہ ہی جو ستم ڈھاؤ گے