کون اپنے تھے جو دشمن کے حواری نکلے
بات نکلی ہے تو پھر ساری کی ساری نکلے
ہم تو سمجھے تھے کہ تقدیسِ قلم جانتے ہیں
ہائے جو لوگ کرائے کے لکھاری نکلے
میری جانب سے یہ اعلان سناؤ سب کو
جو مری صف میں ہے گر عشق سے عاری نکلے
یہ کوئی کھیل نہیں سوچ سمجھ کے کرنا
یہ نہ ہو عشق کہیں جان پہ بھاری نکلے
دیکھنے لگتے ہیں سب لوگ مری آنکھوں میں
میرے ہر شعر میں جب بات تمھاری نکلے
تخت پر جن کو بٹھایا تھا فسانے میں صغیر
وہ اداکار تو شجرے سے بھکاری نکلے