بھی جنم نہیں میں نے لیا ہے دنیا میں
مگر میں خوف سے ہر پل لرزتی رہتی ہوں
میں ماں کی کوکھ کے اندر بھی ڈرتی رہتی ہوں
سہم سہم کے میں بے موت مرتی رہتی ہوں
……………………………
سنا میں نے کہ سائنس کی یہ ترقی بھی
ہمارے واسطے لائی ہے اک نئی افتاد
سُنا ہے ایسی مشینیں بھی ہو گئیں ایجاد
جو ماں کی کوکھ کے اندر کے سب مناظر بھی
چمکتی جاگتی سکرین پر دکھاتی ہیں
جو نسل و جنس کا پورا پتہ بتاتی ہیں
……………………………
سُنا ہے ،مائیں بھی خود بیٹیوں کی دُشمن ہیں
جب اپنی’’ رحم‘‘ میں بیٹی کا جان لیتی ہیں
تو اس کے قتل کی پھر دل میں ٹھان لیتی ہیں
……………………………
بھلی تھی رسم ،ہمیں زندہ گاڑ دینے کی
تو قبر بنتی تھی آنسو بہائے جاتے تھے
جو باپ لے کے ہمیں قتل گاہ جاتا تھا
نئے لباس میں ہم بھی سجائے جاتے تھے
ہمارے سر پہ ربن بھی لگائے جاتے تھے
………………………
پر ایسا ظلم تو دیکھا سنا نہ دنیا میں
بہت سی ہیں مری بہنیں کہ جن کو مل نہ سکا
کفن کے نام پہ کپڑا کوئی نیا عرشیؔ
کہ جن کا کوئی جنازہ اُٹھا نہ ارتھی ہی
زمیں پہ ایک دو بالشت بھی جگہ نہ ملی
ہمیں تو ماؤں کے رحموں میں بھی پنہ نہ ملی
…………………………
بہت سی ہیں میری بہنیں جو ماؤں کے ہاتھوں
انہیں کی کوکھ کے اندر مٹائی جاتی ہیں
خوشی کے ساتھ گٹر میں بہائی جاتی ہیں
…………………………
ابھی جنم نہیں میں نے لیا ہے دنیا میں
مگر میں خوف سے ہر پل لرزتی رہتی ہوں
میں ماں کی کوکھ کے اندر بھی ڈرتی رہتی ہوں
سہم سہم کے میں بے موت مرتی رہتی ہوں
…………………………