کویٔ رشتہ بھی زمانے میں نہیں ماں جیسا
غیر مشروط ہے پیار اُس کا بھی یزداں جیسا
میں وہی ، درد وہی ، نالہ و فریاد وہی
دِل کا پھر حال وہی ، شامِ غریباں جیسا
کاش ویرانی مرِی ہوتی مجھی تک محدوُد
گھر بھی اب لگنے لگا میرا ، بیاباں جیسا
اب تو یہ حالِ جنوں ہے کہ جسے بھی دیکھا
اُس کا چہرہ ہی لگا صوُرتِ جاناں جیسا
دِل کی دنیا ہی بدل دیتا ہے اِک لمحے میں
کویٔ پیماں بھی نہیں پیار کے پیماں جیسا
چاہتوں میں کویٔ احسان نہیں ہوتا ہے
اُس نے چاہا بھی تو انداز تھا احساں جیسا
بات کرتا ہے بظاہر وہ بڑی نرمی سے
اُس کا لہجہ ہے مگر شاہوں کے فرماں جیسا