کُچھ تو چہرے پہ خاک رہ جائے
اور قبا یُوں ہی چاک رہ جائے
جِس سے بچپن کا پیار بِچھڑا ہو
کیسے وہ ٹھیک ٹھاک رہ جائے
ہم نے یُوں بھی محبتیں کی ہیں
جِسم کُچھ دِن تو پاک رہ جائے
جانے کیوں لوٹ کر نہیں آتے
آنکھ میں جن کی تاک رہ جائے
چھوڑ جا یادِ رفتگاں مُجھ کو
نِت مرا اِنہماک ... رہ جائے
ڈھل نہ جائے کہیں زمانے میں
جب وہ بِچھڑے تو باک رہ جائے
اُن کا بوسہ نصیب ہو بــــــــاقرؔ
روز خواہش ہلاک رہ جائے