کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے
بچھڑ بھی جائیں تو ہاتھوں میں ہات رہ جائے
اب اس کے بعد کا موسم ہے سردیوں والا
ترے بدن کا کوئی لمس ساتھ رہ جائے
میں سو رہا ہوں ترے خواب دیکھنے کے لیے
یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے
میں ڈوب جاؤں سمندر کی تیز لہروں میں
کنارے رکھی ہوئی کائنات رہ جائے
شکیلؔ مجھ کو سمیٹے کوئی زمانے تک
بکھر کے چاروں طرف میری ذات رہ جائے