اب اداسی سے خوب بنتی ہے میری عنبر،
نام تمہارا لوں چلی آتی ہے.
تم کہتے ہو مراسم نہیں کوئی،
بتاؤ پھر کیوں یاد آتے ہو؟؟
فسانہ ء محبت کا ذکر کو بہ کو کرے،
حال ء دل یوں وہ میرےرو بہ رو کرے.
کاش محبتوں میں ایسا بھی مقام آۓ،
ہو سکوت اور سکوت بھی گفتگو کرے.
وہ میری ذات کی کرچیاں کر کے عنبر،
اب سمیٹنے کی جستجو کرے.
برباد کر کے شہر کو مصلے پہ جھک گیا.
نیک تھا بہت وہ عبادت گزار تھا.
جاں سے گزر گئے لو بکھر گئے تنکو کی طرح،
سنا ہے ہم اجڑ گئے محبت کر کے.