کچھ اپنے دل کا حال سنا کیوں نہیں لیتے
تم روٹھنے والوں کو منا کیوں نہیں لیتے
جو تم سے عداوت کریں یہ سوچ رہے ہیں
تم ان کو اپنے دوست بنا کیوں نہیں لیتے
ہم سے گلہ کرو گے میری جان کب تلک
تم اپنا ساتھ خود ہی نبھا کیوں نہیں لیتے
تم چاہتے ہو جن کو دل و جاں سے بیطرح
آو از دے کے ان کو بلا کیوں نہیں لیتے
عظمٰی یہی سوال اگر تم سے کیا جائے
تنہائی کی وحشت کو مٹا کیوں نہیں لیتے