کچھ بات نہیں جسم اگر میرا جلا ہے
صد شکر کہ اس بزم سے شعلہ تو اٹھا ہے
مانا کہ مرے لان کی پھر سبز ہوئی گھاس
اس مینہ میں پڑوسی کا مکاں بھی تو گرا ہے
سردی ہے کہ اس جسم سے پھر بھی نہیں جاتی
سورج ہے کہ مدت سے مرے سر پر کھڑا ہے
ہر سمت خموشی ہے مگر کہتے ہیں کچھ لوگ
اس شہر میں اک شور قیامت کا بپا ہے
دیوار سے گو اینٹ کھسک کر پڑی سر پر
صد شکر کہ روزن کوئی زنداں میں کھلا ہے
اب دیکھیے کس راہ میں دیوار بنے گا
ڈھلوان پہ اک سنگ گراں چل تو پڑا ہے
اس سال مرے کھیت میں اولے بھی پڑے ہیں
اس سال مری فصل کو کیڑا بھی لگا ہے
آنکھیں مری روشن رہیں خوش حال رہوں میں
اک اندھی بھکارن کی مرے حق میں دعا ہے
میں بھوک سے بے حال ہوں تو سیر شکم ہے
کیا میرا خدا وہ نہیں جو تیرا خدا ہے