کچھ خواب، کچھ یادیں اٹھا کے چل دئیے
عمر بھر کی کمائی اٹھا کے چل دئیے
کوئی منزل بھی تھی ہماری، ہمیں یاد نہ رہا
منزل اپنی ہم بھلا کے چل دئیے
کوئی ڈھونڈنا بھی چاہے تو ڈھونڈ نہ سکے گا
ہم اپنے نقش پا مٹا کے چل دئیے
ہم تو رو رہے تھے مگر پھر بھی کسی کو
ذرا سی دیر کے لیے ہنسا کے چل دئیے
بختیاؔر شکایت تھی، کوئی نہ روکنے آیا
تم بھی تو سب سے نظر بچا کے چل دئیے