کچھ سنو۔۔۔
Poet: طارق اقبال حاوی By: Tariq Iqbal Haavi, Lahoreسنو
میں تم سے ”کچھ“ نہیں کہنا چاہتا
بلکہ بہت ”کچھ“ کہنا چاہتا ہوں!
کسی دن سب ”کچھ“ چھوڑ چھاڑ کر
اپنی مصروفیت میں سے ”کچھ“ وقت نکالو
اور ”کچھ“ دیر کے لئے میرے پاس آٶ
”کچھ“ باتوں کا اظہار کروں
جو ”کچھ“ عرصے سے میرے دل میں دبی ہیں
جو ”کچھ“ ہو
اس میں ہماری ہی ”کچھ“ غلطیاں تھیں
ویریوں نے جو ”کچھ“ کیا، سو کیا
مگر ہم نے اپنی محبت کی بقاء کے لیے
”کچھ“ نہیں کی!
ہم نے وعدے تو کئے
مگر ”کچھ“ ارادے نہ کئے
ہم نے پیار تو کیا
مگر ”کچھ“ اعتبار نہ کیا
ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنا سمجھا
صرف سمھ
مانا نہیں، جانا نہیں
اب اگر ہمارے پاس کچھ ہے
تو وہ ہیں خاموش لب
لیکن اگر لب بھی ”کچھ“ دیر اور خاموش رہے!
تو سب ”کچھ“ بدل جائے گا
اور ہمارے پاس سوائے
سسکیوں کے ”کچھ“ نہیں بچے گا
”کچھ“ لوگ ابھی تمھیں
اور بھی سبز باغ دکھائیں گے
لیکن اگر ”کچھ“ کرنا ہے
تو تم نے کرنا ہے
یہ فیصلہ بھی تمھارے ہاتھ ہے
کہ سبز باغ زیادہ دیرپا ہیں
یا ہماری محبتوں کی چند بیلیں؟؟؟
دیکھو ابھی ”کچھ“ حالات بدلیں ہیں
اور حالات ہمیشہ ہی بدلتے ہیں
مگر ”کچھ“ جذبات کبھی نہیں بدلتے
اگر ان میں ”کچھ“ سچائی ہو
یہ سب ”کچھ“ میرے پیار کا آئند ہے
”کچھ“ پل جو جب بھی ڈھلیں گے
”کچھ“ سانس جو ”کچھ“ دن چلیں گے
اور جو ”کچھ“ میرے پیار کا حاصل ہے
سب ”کچھ“ تمھارے نام لکھ دیا ہے
مجھے دنیا میں خدا سے
اور تم سے
سوائے تمھاری وفا کے
”کچھ“ نہیں چاہئے
اگر میرے لئے ”کچھ“ کرنا چاہو
تو احسان یہ کرنا
”کچھ“ بھی ہو
مجھے دل سے بے گھر نہیں کرنا
کیونکہ یہ معاشرہ اکیلی جاں کو
جینے نہیں دیت!!!
”طارق اقبال حاوی“
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







