کچھ لمحے فرصتوں کے میرے ساتھ تم گزارو
Poet: Abdul Waheed Sajid By: Abdul Waheed Ghori, DUNYAPUR, DISTRICT LODHRANکچھ لمحے فرصتوں کے میرے ساتھ تم گزارو
مجھے جان کہنے والو یوں جان سے نہ مارو
اتنی سی بات کہہ کے مجھ سے بچھڑ گیا وہ
میں بھی تمہیں بلاؤں تم بھی مجھے پکارو
ایسا نہ ہو کہ تجھ کو سینے سے پھر لگاؤں
میرا دل دکھاؤ لیکن یہ زلف نہ سنوارو
مجھ کو اجاڑ کر بھی میرا حال پوچھتے ہو
انداز بھا گیا ہے مجھ کو تمہارا یارو
اس کے بنا چین سے سویا نہیں ہوں میں بھی
دیکھو گواہ رہنا تم اے فلک کے تاروں
میں بھولنے لگا ہوں جھوٹی محبتوں کو
پھر یاد اب نہ آنا مجھے جان سے بھی پیارو
گر ضد پہ آگئے ہو تو یہ فیصلہ ہے اپنا
تم جیت جاؤ لیکن مجھ سے کبھی نہ ہارو
ممکن بھی یہ کہاں ہے وہ مجھ کو چھو لے آکر
تم بھی کبھی ملے ہو سمندر کے دو کناروں
میں بھی تو ہوں شکستہ بالکل تمہارے جیسا
مجھے غور سے تو دیکھو اجڑے ہوئے مزاروں
میت پہ میری آ کے غیروں سے کہا اس نے
ساجد تو مر گیا ہے اسے لحد میں اتارو
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






