کچھ لمحے فرصتوں کے میرے ساتھ تم گزارو
مجھے جان کہنے والو یوں جان سے نہ مارو
اتنی سی بات کہہ کے مجھ سے بچھڑ گیا وہ
میں بھی تمہیں بلاؤں تم بھی مجھے پکارو
ایسا نہ ہو کہ تجھ کو سینے سے پھر لگاؤں
میرا دل دکھاؤ لیکن یہ زلف نہ سنوارو
مجھ کو اجاڑ کر بھی میرا حال پوچھتے ہو
انداز بھا گیا ہے مجھ کو تمہارا یارو
اس کے بنا چین سے سویا نہیں ہوں میں بھی
دیکھو گواہ رہنا تم اے فلک کے تاروں
میں بھولنے لگا ہوں جھوٹی محبتوں کو
پھر یاد اب نہ آنا مجھے جان سے بھی پیارو
گر ضد پہ آگئے ہو تو یہ فیصلہ ہے اپنا
تم جیت جاؤ لیکن مجھ سے کبھی نہ ہارو
ممکن بھی یہ کہاں ہے وہ مجھ کو چھو لے آکر
تم بھی کبھی ملے ہو سمندر کے دو کناروں
میں بھی تو ہوں شکستہ بالکل تمہارے جیسا
مجھے غور سے تو دیکھو اجڑے ہوئے مزاروں
میت پہ میری آ کے غیروں سے کہا اس نے
ساجد تو مر گیا ہے اسے لحد میں اتارو