کچھ مُنفرد ، کچھ سادہ ، کچھ اہم تو ہو
Poet: اخلاق احمد خان By: Akhlaq Ahmed Khan, Karachiکچھ مُنفرد ، کچھ سادہ ، کچھ اہم تو ہو
 تَخیُل جہانِ قلب کا کچھ ، محترم تو ہو
 
 علمی جوہر دِکھاٸیے کٹِھن نہ کیجیے
 پیامِ قلم کار ، عام فہم تو ہو
 
 عُروض ردیف قافیہ نہ مرکزِ مضمون
 نظم میں سُخن ور کوٸی ، نظم تو ہو
 
 زندگی یوں تو گزاریے کہ کسی تلخ موڑ پر
 قابلِ قبول نہ سہی ، قابلِ رحم تو ہو
 
 دِکھاٸیں ہم بھی عشقِ گزشتہ کے جلوے
 سامنے ہمارے کوٸی ویسا ، صنم تو ہو
 
 مانا فخرِ جواں ہے اب آزادی و بانکپن
 گفتار میں حیا ٕ ، دیدوں میں ، شرم تو ہو
 
 اُجلت زدہ ، اُچاٹ ، لاچار سجدوں میں
 گمانِ خدا نہیں ، تصورِ حرم تو ہو
 
 منصبِ جہاد اب کسی عیب سے ہے کم کیا
 تیغ نہیں نہ سہی ہاتھ میں ، قلم تو ہو
 
 پاۓ گا عُہدے شہرت لیا جاۓ گا ہاتھوں ہاتھ
 لبرل بن ، زہر اُگل زرا ، بے دھرم تو ہو
 
 بے دینی و گمراہی کے طوفان آٸیں گے
 اثر مُلّا کا سیاست سے ، ختم تو ہو
 
 کورٹ کچہریوں میں انصاف پانے کو
 بے گناہی نہ سہی ، رقم تو ہو
 
 سوچے ہو حق بولے ہو سچ پھر پوچھتے ہو کہ
 ہمیں ملی سزا کا کوٸی ، جُرم تو ہو
 
 شرافت بھی ضروری ہے اس بے درد جہاں میں
 جینے کو ” اخلاق “ کچھ زرا سا ، خم تو ہو






