کھلا کھلا سا وہ ماحول گلستاں نہ رہا
تھیں جس کے دم سے بہاریں وہ باغباں نہ رہا
چلی ہوائے تشدد اجڑ گیا ہے شہر
کہیں مکیں نہ رہے تو کہیں مکا ں نہ رہا
کہاں سے لاؤں سکوں کی وہ سوندھی سوندھی مہک
ہمارے گاؤں میں کچا کوئی مکاں نہ رہا
لٹا دیا تھا نشیمن بھی جس چمن کے لئے
اسی چمن میں مرا کوئی نوحہ خواں نہ رہا
جھکی ہے خود ہی جبیں جب بھی آئی یاد حبیب
ہمارا سجدہ کبھی تابع اذاں نہ رہا
انھیں کے دم سے ہیں تہذیب کے نشاں باقی
وہ قدریں جن کا کوئی آج قدرداں نہ رہا
ہیں مصلحت کی سیاہی میں ڈوبی تحریریں
ترا قلم بھی حسن تیرا ترجماں نہ رہا