کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھتی ہوں
تعجب ہے میں اب بھی سوچتی ہوں
میرے بچے قربان ہورہے ہیں
میں پھر کیوں سبزے کو دیکھتی ہوں
گماں غالب مگر یقیں نہیں مجھ کو
مگر کیوں لکیر یں ہاہاتھوں کی دیکھتی ہوں
مرا اک پل بھی نہیں اوجھل ہے رب سے
تو کیوں عذر گناہ کو دیکھتی ہوں
حیراں ہوں اپنی کوتاہ نظری پر
ترے اندر کے روشن پہلو کو دیکھتی ہوں