کہاں اب لذت فکر رسا ہے
جہاں بینی بھی میری اک وبا ہے
نگاہ آگہی مالک عطا کر
میرے لرزاں لبوں کی التجا ہے
وہیں ششدر حیات جاودانی
جہاں فانی جہاں کو انتہا ہے
جزیرے کھوجنے کی جستجو میں
خود اہنی زنگانی گمشدہ ہے
سنا ہے دولت دنیا سے آگے
محبت، ربط، رشتہ اور وفا ہے
مریں گے ہمبھی اپنی جسجو میں
ہمیں بھی شوق مرض لادوا ہے