کہتے ہیں عید آئی ہے
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے
کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
کیسے مناتے ہیں اسکو کیسے سجاتے ہیں اسکو
کس رنگ میں آتی ہوگی کس ڈھنگ میں جاتی ہوگی
کوئی پوچھے تو کیا بتاؤں یا اپنے اندر کا سماں دکھاؤں
یقینا کالی گھٹا ہوگی بادلوں سی برپا ہوگی
آندھیوں سی مچلتی ہوگی بارشوں سی برستی ہوگی
کسی آنگن میں ناچتی ہوگی کسی دامن میں کانپتی ہوگی
کہیں اشکوں میں بہتی ہوگی کہیں آنکھوں میں رہتی ہوگی
کسی من میں دھڑکتی ہوگی کسی من میں اچھلتی ہوگی
خوابوں سے دور ہوکر حجابوں میں ملبوس ہوکر
کسی گلی محلے میں کسی شہر سولے میں
رونقیں اُبھارتی ہوگی محفلیں زنگارتی ہوگی
خواب دے کر آنکھوں کو پھر شب بھر بچھاڑتی ہوگی
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے
کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
کس رنگ میں عیاں ہوگی یا الفتوں میں بیقراں ہوگی
آہٹوں میں پنہاں ہوگی نفرتوں میں زیاں ہوگی
اک رنگ میں دیکھی میں نے اک جنگ میں جھیلی میں نے
مجھے تو سانپ لگتی ہے مجھے تو کانپ لگتی ہے
مجھے کاٹا ہے عیدوں نے مجھے نوچا ہے عقیدوں نے
یقینا بے نوا ہوگی کھلتے پھولوں پہ وبا ہوگی
تارہ ٹوٹنے کا نام ہوگی ہجرتوں کا جام ہوگی
یہ عید بھی فنا ہوگی یہ عید بھی سزا ہوگی
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے
کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
بھولی بھٹکی بیچاری دَر دَر پہ تھکی ہاری
چہروں پہ غنود تاری آہوں سے وجودبھاری
بِلکتی سِسکتی خاکساری مَن مست دہلیزوں پہ جاری
کہیں پہ دَرد نُماں ہوگی کہیں پہ مہرباں ہوگی
کہتے ہیں عید آئی کل رنگوں کی پذیرائی ہے
کہاں ہے عید یارو کیسی ہے عید یارو
کس کی ہے عیدیارو بن دید کے گزرنے والی
عید یہ مجھ سے سجائی نہ جائے گی منائی نہ جائے گی
تم نے جو پائی ہے تو مبارک ہو تمہیں عید یارو