جو خواب آنکھوں سے روٹھ گئے ہیں
جانے کس دیس چلے گئے ہیں
سُونی آنکھیں۔ ویران پلکیں
بے چین ہو کے رستہ دیکھیں
بدلے گا منظر، کُھلیں گی راہیں
چُھڑا کے دامن، پھیلائے بانہیں
کہو نا اُن کو کہ لوٹ آئیں
کریں نہ تنہا۔ یوں نہ ستائیں
اب تو دن بھی طویل تر ہیں
راتیں تو ٹہری ہی مختصر ہیں
کہاں تک دل کو ہم بہلائیں
کہو نا ان کو کہ لوٹ آئیں