کیا تعظیم سے بڑہ کر اور عبادت ہے اپنی
میں میرا ہی خیال ہوں یہ شناخت ہے اپنی
دل بھی تو ارادے تجویز کرتی ہے لیکن
آنکھوں کے پاس یوں بھی شرارت ہے اپنی
توڑدو آج قید و شرطیں سبھی لازم
آزادیوں سے نہ کوئی مزاحمت ہے اپنی
میں خود لیئے اطمینان لا بھی دوں گا
مگر حالات کے تذکروں کی حرارت ہے اپنی
یہاں بدمستی میں بازگشت کی دھوم مچی ہے
یوں تو انجام سے انتقام کی وراثت ہے اپنی
چلو سنتوشؔ اب اوروں کے تاسف سیء لیں
میرے زخموں نے کہدیا اجازت ہے اپنی