اثر ہوگا کبھی نہ کبھی میری پکار میں
آئے گا سوز و ساز بھی میری پکار میں
میرے مسیحا آ کہ تن میں جان نہ رہی
مدت سے ہوں بیمار تیرے انتظار میں
دل کی ہر دھڑکن پہ تیرا نام لکھا ہے
اور بصارت بھی رہتی ہے انتظار میں
دل کی روانیاں پریشاں ہو کے پوچھتی ہیں
کب جیئے کتنا جیئے کوئی ایسے انتظار میں
ہم آج تک جیتے رہے بس انتطار میں
کیا موت بھی ملے گی ہمیں انتطار میں