دور رہ کر تم کیسے جی پاؤ گے
مئے فراق بھی کیسے پی پاؤ گے
مجھ سے ملو ناں ملو ہے اجازت تم کو
راہوں پہ نگاہیں مگر بچھی پاؤ گے
حسنِ یار کے دیدار کو اٹھی تھی ورنہ
جب بھی آؤ گے نگاہ جھکی پاؤ گے
شہر کے لوگوں کو ہے نفرت مجھ سے
تم آؤ گے تو ہر سو خوشی پاؤ گے
بے دھڑک چلے آؤ شب کے کسی پہر
چراغوں کی ضیا میں حیا چھپی پاؤ گے
کون حالِ دل سن کر وحید دلاسا دے گا
اپنوں میں خود کو جب اجنبی پاؤ گے