کیوں خواب سے چہرے پہ ھے ابہام کی صورت
مجھ کو تو جگاتی ھے تیرے نام کی صورت
ترسی ھوئی نظروں کو ذرا چہرہ تو دکھا دو
تیرا جلوہ ھے میرے واسطے انعام کی صورت
سلگتے ھوئے ارمانوں کو چاھت کا رنگ دے کر
اب کیوں مجھ کو ستاتی ھو کسی شام کی صورت
میں چلا آتا کہ سفر اتنا بھی دشوار تو نہ تھا
پر خط تیرا مجھے آج ملا پیغام کی صورت
نگاھوں میں جو سیلاب تھا امڈتے ھوئے دیکھا
وہ دکھ تھا جو آنکھوں میں اٹھا کہرام کی صورت