کیوں دشت و بیاباں میں سرکار گھومتے ہو
کس کھوج میں ہو آخر کیوں یار گھومتے ہو
منزل کی آرزو میں مسافت کی عادتوں نے
مجبور کر دیا ہے جو ناچار گھومتے ہو
منزل کو پالیا ہے لیکن سکوں نہیں ہے
انہی راستوں پہ آ کے ہر بار گھومتے ہو
ٹھکرائے جا چکے ہو اک بار جس گلی سے
کیوں اَس گلی میں جا کے بار بار گھومتے ہو
سراب میں جز پیاس کے کچھ بھی نہ مل سکے گا
عظمٰی اِسے بتادو بے کار گھومتے ہو