بات جب بھی ہوتی ہے تو کیوں کھو جاتی ہے
ہماری بات ان باتوں میں
ساری مصلحتیں ساری مجبوریاں
ہم پہ آکر ہی کیوں رک جاتی ہیں
بات جب بھی ہوتی ہے تو
بات کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ
دو دلوں کے بھی کوئی ارمان ہوتے ہیں
سب اک جیسے نہیں ہوتے
کچھ کے پاکیزہ جذبات ہوتے ہیں
باتوں میں سے بات نکالنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ
ان ہی جذباتوں میں رندگی کے آثار ہوتے ہیں
آگے بڑھنے کے خیال ہوتے ہیں
اور اگر یہی جذبات چھن جائیں تو
زندگی بے معنی ہو جاتی ہے
جیت ہار سب یکساں ہو جاتی ہے
بات کرنے والے بات کرنے سے پہلے
یہ کیوں نہیں سوچتے