ہم نے در در گداگری کی
پھر بھی آئی صدا نوحہ گری کی
تھی شان جھوٹی وہ تاج وری کی
جو اگی دل کے آبگانوں مے
وہ گھاس ہری تھی
تھا تماشا حسن کا ہاتھ مے چھڑی تھی
تھا نفسا نفسی کا عالم
پل دو پل کی گھڑی تھی
وہی مستقل بن گئی جو آرضی جڑی تھی
مسلسل سالوں کیطرح
اس بار بھی غم کی جھڑی تھی
پھول تھے کم گلشن مے لمبی لڑی تھی
زندگی کے سفر مے رضا
اک یاد بے آبرو کھڑی تھی