گزرے ہیں اَس دور سے ہم بھی کبھی۔۔۔۔۔
جب چہرے کِھلنے لگتے ہیں مَسکان لبوں پہ سجتی ہے
آنکھوں میں دیپ چمکتے ہے موسم بہکنے لگتے ہیں
جب رَت مستانی ہوتی ہے بے باک جوانی ہوتی ہے
جب سَرخ گَلابوں کا موسم ہر رنگ سے پیارا لگتا ہے
جب تتلیوں کی شوخیاں گَلشن کو سجانےلگتی ہیں
بھنوروں کی اٹھکھیلیاں کلیوں کو لَبھانے لگتی ہیں
پھولوں سے لدی سب ڈالیاں سرخوشی سر مستی میں
کیسے لہرانے لگتی ہیں پل پل اِترانے لگتی ہیں
گزرے ہیں ہن بھی اَس دور سے کبھی۔۔۔۔۔
کوئل کی سَریلی کَوک سماعت سے ٹکراتی ہے
کانوں میں رس گھولتے چاہت کے گیت سَناتی ہے
رَوح میں اَترتی جاتی ہے دیوانہ کر جاتی ہے
سنسنی پھیلاتے ہوئے مستانہ کر جاتی ہے
جیسے شام کی بانسَری رادھا کا من بہکاتی ہے
سَندر سپنوں کی وادی میں دَور کہیں لے جاتی ہے
پل پل پیار بھرے سپنے نینوں میں بساتی ہے
گزرے ہیں ہن بھی اَس دور سے کبھی۔۔۔۔۔
انجانی سی آہٹ بھی جانی پہچانی لگتی ہے
دِل کے تاروں میں میٹھی سی گھنٹی بجنے لگتی ہے
گویا دِل کے آنگن میں کوئی محفل سجنے لگتی ہے
جب دو دِل مِل کے کِھلتے ہیں بے باک جوانی ہوتی ہے
نہ چاہتے ہوئے بھی ہونٹوں پہ جب دل کی کہانی آتی ہے
موسم بھی بہکنے لگتے ہیں رَت مستانی ہو جاتی ہے