گزر گئیں صدیاں اِک ملاقات کے بعد
کاش کہ آجـاۓ وہ مدا رات کے بعد
عـــجـب ربــط تھا روح و جــسم کا
بہتی تھیں آنکھیں ہر برسات کے بعد
تھے لمحے قیامت کی مــنظر کے مـگر
فضول تھے گِلے شکوے مناجات کے بعد
تھی صـبح میں اطہرِ شـبنم کی بہار
تنہا تھی خاموشی مہرباں رات کے بعد
عُمیر فیـضِ گُل کی تمنہ لیے ہوۓ
سُنا آۓ شـِکست اپنی بات کے بعد