برسوں کی یہ خانہ ویرانی ہے
آباد ہو دل کا جہاں کیسے
اک چراغ جو جل جائے تو دیکھنا
شیش محل میں ہوتا ہے چراغاں کیسے
پرپیچ گلیاں ہیں خواہشات کی
رستہ بھولتی ہے عقل حیراں کیسے
اس گنبد سے بازگشت جاتی نہیں
ایک لفظ ہوتا ہے دیکھو بیاں کیسے
کوئی حرف شیریں تیرے لبوں سے
بنتا ہے دیکھو نغمہ جاں کیسے
گر یہ قابو میں ہے ضبط کے اب تک
ذرا چھیڑو تو بہتا ہے سیل رواں کیسے
تیری یاد نے سہارا دیا دل کو آج
سرراہ مل جائے کوئی مہرباں جیسے
بیتی ہوئی باتیں یوں یاد آئیں
گزر گیا سامنے سے کوئی کارواں جیسے