ہر اک ذی فہم لگتا ہے یہاں پر خود پسندی میں
مگر دیوانگی میں عقل کے جیسا نہیں کوئی
نہ پوچھو حال اہلِ عقل کا اس شہرِ نفرت میں
یہاں سب بولتے ہیں پر کوئی سنتا نہیں کوئی
خموشی جب سے لب پر آ گئی ہے، چین سا ہے اب
کہ اپنے درد کی شدت سمجھتا بھی نہیں کوئی
نہ جانے کون ہے مجذوب، اور ہے شیخ کامل کون
نظر آتا ہے ہر چہرہ، مگر کھلتا نہیں کوئی
سرابوں میں اگر ڈوبا حقیقت سامنے آئی
جو دیکھا تھا وہ منظر تھا، مگر ملتا نہیں کوئی
خموشی کے جہاں میں زندگی کا شور رہتا ہے
کہ آوازِ دلِ جاناں مگر سنتا نہیں کوئی