ہر ایک آس کو بے آس کر گیا "شاید"
یقیں جو دل میں دھڑکتا تھا مر گیا شاید
پُر اعتماد سا لہجہ تھا دم بہ دم، دم کا
بس ایک دم ہیں میں وہ دم بھی مر گیا شاید
یہ خامشی یہ اُداسی بتا رہی ہے مجھے
مرے جنوں کا وہ سیلاب اتر گیا شاید
بگولے سانس کی گلیوں میں سر نہادہ ہیں
تلاشِ ہستی میں پاگل گُزر گیا شاید
اُترتی سانس میں کیسے کوئی مہک عاشی
گلاب کھلنے سے پہلے بکھر گیا شاید