اک بار نہیں دل میں ہر بار اترتا جائے
اک روپ سہانا سا ہر بار سنورتا جائے
وہ سامنے آکر بھی کچھ کہہ نہیں پائے
معصوم نگاہوں سے بس دیکھتا جائے
شاید اسے دنیا کی رسموں کا پاس ہے
میرا ہے مگر مجھ سے دور ہوتا جائے
محرومیوں نے جس کو بے حس بنا دیا
اس دل سے محبت کا احساس مٹتا جائے
پہلے دل شکستہ ہوا گردش افلاک سے
اب عقل وخرد کا بھی ساتھ چھوٹتا جائے
تعبیر کی تلاش میں ناکامیوں کے بعد
خوابوں کا سلسلہ بھی اب ٹوٹتا جائے
عظمٰی قدم سنبھال کے رکھنا دیار خار میں
ورنہ تو زخموں کا سلسلہ بڑھتا جائے