کیا عقیدت میں جانے کمی رہ گئی
میری ہر اک دعا ان سنی رہ گئی
بس اتھی بھی نہ تھی ، گر گئی پھر نقاب
دل کی حسرت دبی کی دبی رہ گئی
وہ ملے ، دیر تک خوب باتیں ھو ئیں
بس وہی ایک بات ان کہی رہ گئی
آںکھوں سے پونچھ تو ڈالے آنسو ، مگر
کیفیت شبنمی شبنمی رہ گئی
الوداع کہہ گیا کیا شریک حیا ت
موت بن کر مری زندگی رہ گئی
بس پڑی ہی تھی بے شرمیوں پر نظر
شرم سے پھر جھکی کی جھکی رہ گئی
ماں تھی ، اولاد کے سارے غم سہہ گئی
بس طبیعت ذرا چڑچری رہ گئی
اتنا اعلی تھا کردار اس کا ‘ حسن ‘
ساری دنیا جسے دیکھتی رہ گئی