کیسی ہوا چلی ہر پنچھی ہو چلا بغاوت پہ آمادہ
جھولی پھیلاؤ کہ اب کشکول ہو چلا بغاوت پہ آمادہ
سسک رہی ہے حیا چھلنی ہے آبرو یہاں
ہر شخص ہے اس نظام سے بغاوت پہ آمادہ
اب کے عجب چال چلی معمار وطن نے
شہر کی ہر دیوار ہے اب بغاوت پہ آمادہ
عجب نصاب ہے طفل مکتب کا ان دنوں
ہر بچہ ہے اب اپنے باپ سے بغاوت پہ آمادہ
وار اس قدر شدید ہے انا کے پندار پر
روح ہو چلی ہے اب جسم سے بغاوت پہ آمادہ