ہر شے میں ہے تغیر جو ہر پل جدا ملے
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbai, Indiaہر شے میں ہے تغیر جو ہر پل جدا ملے
تکیہ ہو کیوں کسی پر جو پل میں فنا ملے
پل میں کہیں بہار تو پل میں خزاں ملے
پل میں ہوا کا رخ بھی بدلتا ہوا ملے
پل میں کہیں خوشی ہو تو ماتم بھی ہو کہیں
پل میں ملے فراخی تو پل میں لٹا ملے
پل میں کوئی ہو شاہ تو محکوم ہو کوئی
کوئی ملے امیر تو پل میں گدا ملے
مغرور ہو کوئی یا ستمگر بھی ہو کوئی
پل میں کسی کا ہوش تو اڑتا ہوا ملے
ہے آرزو طویل تو پل کی خبر نہیں
جلتا ہوا چراغ بھی پل میں بجھا ملے
ٹوٹے نہ دل کسی کا وہ ہر پل کِھلا ملے
اٌس آئینہ کی قدر تو دل میں سِوا ملے
دل اثر کا لگے تو تغیر نہ جن میں ہو
بس خیر کے امور میں ہر پل لگا ملے
More General Poetry






