ہر گھڑی خواب و خیالات میں گم رہتا ہے
دور دنیا سے طلسمات میں گم رہتا ہے
میں سناتا ہوں اسے حال کے دلکش نغمے
وہ مگر ماضی کے نغمات میں گم رہتا ہے
میں نے کتنا ہی اسے خود میں سمونا چاہا
وہ تو بس اپنی ہی اک ذات میں گم رہتا ہے
اس کو کیسے ہو بدلتی ہوئ دنیا کی خبر
وہ تو بیتے ہوئے لمحات میں گم رہتا ہے
میں نے اکثر اسے ویرانوں میں پھرتے دیکھا
جانے وہ کیسے تجربات میں گم رہتا ہے
اس کی دنیا تو ہے بس ایک پہیلی زاہد
وہ تو ان دیکھے مقامات میں گم رہتا ہے