ہماری آستینوں میں سانپ رہتےہیں
یہ بات سوچ کرہم کانپ جاتےہیں
اصغر اب اتنے نادان نہیں رہے
اب ہم لوگ انہیں بھانپ لیتےہیں
ہم جن کو دعاہیں دیتےرہتےہیں
وہی ہمیں برےشراپ دیتےہیں
ہمیں جس دل میں جگہ ملے
وہاں لگا اپنی چھاپ دیتےہیں
ہم ابھی بسترمرگ پہ ہیں وہ
درزی کو کفن کاناپ دیتےہیں