ضرورتوں نے ہماری انا کو مارا ہے
وگرنہ کفر کا سجدہ کسے گوارہ ہے
تمہاری خیر خبر پوچھنے چلے آئے
ہمیں لگا تھا کسی نے ہمیں پکارا ہے
سنہری دھوپ تیرے روپ کی علامت ہے
شب سیاہ تیری زلفوں کا استعارہ ہے
جو تیری آنکھ کا آنسو پلک نے سینچا تھا
زمانے والوں کی خاطر وہ اب ستارہ ہے
تمہی سے منفعت کار گہہ ہستی تھی
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
تمہیں ڈبونے کو جس نے بھنور تراشے تھے
اسی کے دست تصرف میں ہی کنارہ ہے
یہ رتجگوں کی اذیت ہے اپنی آنکھوں میں
کہ آئینوں سا کوئی خواب پارہ پارہ ہے