ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستا تھی
بچھڑ کے ڈار سے بَن بَن پِھرا وہ
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
میرے انجام کی وہ ابتدا تھی
محبّت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
میرے اچھے دنوں کی آشنا تھی
جسے چُھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بددعا تھی
مریضِ خواب کو تو اب شفا ہے
مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی