ہمارے نفس کی حاکم انا کی زنجیریں
قدم قدم پہ ہیں فکر بقا کی زنجیریں
ہمیں تو شوق سفر تھا مگر ٹھہرنا پڑا
پڑیں جو پیروں میں شہر وفا کی زنجیریں
بہت سہے ہیں ستم حاکم وطن تیرے
کہ ٹوٹنے کو ہیں تیری جفا کی زنجیریں
زمانہ یاد کرے گا اسی کا نام سدا
جو کاٹ دے گا دہر میں اذا کی زنجیریں
بے نام جرم پہ زنداں میں ہم اسیر رہے
ہیں یاد اب بھی وہ دور سزا کی زنجیریں
مرے خیالوں کی پرواز کیوں نہ رک جائے
نظر کو جکڑیں جو تیری ادا کی زنجیریں
ہمیں بھی رشک سے دیکھے گا یہ جہاں زاہد
جو باندھ لیں کبھی فہم و ذکا کی زنجیریں