ہمیں تسلیم ہیں اپنی خطائیں
نبھا پائے نہیں کیونکر وفائیں
بہت چاہا تمہیں جی جان سے پر
نہیں سمجھے تمہیں کیسے اپنائیں
تمہارے بن نہیں جینا تھا ہم کو
عجب ہے کہ جیئے چلے ہی جائیں
مجھے سادہ سی اک چادر بہت ہے
میرے کس کام کی رنگیں ردائیں
میری قسمت میں تنہائی لکھی ہے
جبھی مجھ میں نہیں ناز و ادائیں
نہیں خوشیوں کے پل دائم اگرچہ
ٹلی جاتی ہیں ویسے ہی بلائیں
ہمیں عظمٰ نہیں فرصت ہمی سے
کسی کو ہم بھلا کیا آزمائیں