ہم نے انسو سدا چھپائے ہین
درد پا کر بھی مسکرئے ہین
زیست تو اجنبی رہی ہم سے
تیری محفل میں بھی پرائے ہیں
اب تری آرزو کریں بھی تو کیا
تو نے کیا کیا ستم نہ ڈھائے ہیں
جب کھلی آنکھ تو حیران ہوئے
رات نے خواب کیا دکھائے ہیں
اک کرن کو ترس رہا ہے وہی
دیپ جس نے کئی جلائے ہیں
آپ کانٹون سے ڈر رہے ہیں حضور
ہم نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
زندگی میں تو ہمسفر زاہد
اس کی یادوں کے پھیلے سائے ہیں