ہم نے کب سوچا تھا کہ یہ گلوں کے موسم
اک حسیں یاد کی مانند ہمارے دل میں اتر جائیں گے
خزاں رتوں سے پہلے ہی شاخیں پتوں کو گرا دیں گی
اور ہمیں چاہنے والے اپنا کہنے والے
وہ جو ہمیں اپنا ہونے کا احساس دلاتے تھے
یونہی اک دن
بنا بتائے بنا کچھ کہے
اپنا رخت سفر باندھ لیں گے
ہماری آنکھیں اشکوں سے تر بہ تر
انہیں جاتے ہوئے دیکھیں گی
ہمارے اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ ہو گی
اور ویرانیاں ہمارے اندر گھر کر لیں گی
تب
ہم اپنا گریبان چاک کریں گے
شور مچائیں گے تھوڑا روئیں گے
اور پھر اپنی آنکھیں موند لیں گے
گہری نیند سونے کے لئے