ہم نے کیا

Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, کوئٹہ

خزاں کی رت کو بھی ہنس کر بہار ہم نے کیا
نہ آنے والے! تِرا انتظار ہم نے کیا

جنوں میں کوئی بھی شئے پاس کب رہی اپنے
رہا گریباں، سو وہ تار تار ہم نے کیا

کیا تھا جس نے بھروسہ، نتیجہ بھی دیکھے
تمہارے وعدے پہ کب اعتبار ہم نے کِیا؟

تمہیں سکون ملے، ہو قرار کی صورت
جو بن پڑا ہے، دلِ بے قرار! ہم نے کِیا

دیا تھا زخم ہمیں عام سی شباہت کا
کسی کے تحفے کو پھر زر نگار ہم نے کیا

تمہارے بعد یہ جیون تھا آگ کا دریا
نہ پوچھ کتنی مشقت سے پار ہم نے کیا

رشیدؔ اپنی حقیقت کسے نہیں معلوم
خود اپنا آپ تہجُّد گزار ہم نے کِیا
 

Rate it:
Views: 189
10 Aug, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL