ہم پر وہ تازہ ستم کرتے رہے
اور ہم بس عرضِ کرتے رہے
جانے کب لوگوں نے دیکھا خوش مجھے
ظلم یہ جو دم بہ دم کرتے رہے
کب زباں سے ہم نے حال دل کہا
عرض یہ خود چشم نم کرتے رہے
ہم کو بھی ہے اس بات کا دکھ بہت
ذکر تیرا ہم جو کم کرتے ہیں
اُن کے بارے بھی سوچ لو پرویز جی
جو کہ اپنوں پر ستم کرتے رہے
(پرویز میرے ابو کا نام ہے۔ اور یہ غزل میں نے اُن ہی کی کتاب میں سے لکھی ہے)