وہ جوہندوستان تھا اقبال کا اچھا جہاں
حال اس کا دیکھ کر روتے ہیں اب سات آسماں
گلشنِ ہندوستاں کی ہر کلی مر جھائی ہے
شبنمِ اُلفت کہاں ہے بادِ نفرت آئی ہے
دیکھ دستِ گردشِ ایام کی تحریر کو
تنگ دلی پر تنگ ہوتی آہنی زنجیر کو
سن چمن میں بلبلِ بیباک کی
باغیانہ اور بلند آہنگ اس تقریر کو
میرے آبا نے بنائی کشورِ ہندوستاں
خونِ دل دے کر سجائی کشورِ ہندوستاں
ٹکڑے ٹکڑے عصبیت نے کردیا ہندوستاں
نقشِہ عالم سے مٹ جائے نہ اب اس کا نشاں
کہ رہا ہے آج ہندوستان سے سارا جہاں
آشتی اور امن میں ہی خیر سب کی ہے یہاں
کب تلک یہ وسوسے، اندیشہِ سودو زیاں
احترامِ آدمیت کیلئے کھو لیں زباں